Wednesday, July 9, 2008

Parwana Rudaulvi Dead

پروانہ رودولوی نہیں رہے

اردو کےنامور صحافی شاعر اور ادیب پروانہ رودولوی 12 اپریل کو دہلی کے میکس ہسپتال میں انتقال کر گۓاور انہیں حوض رانی کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا ۔ پس ماندگان میں اہلیہ، بیٹی اور تین بیٹے شامل ہیں۔

پروانہ رودولوی کا شمار ہندوستان کی آزادی کے بعد کی نسل کے ممتاز اردو صحافیوں میں ہوتا ہے۔ در اصل انھیں صحافت کی قدیم روایتوں کا امین کہا جا سکتا ہے جنہوں نے ملک کی تقسیم کے بعد اردو کے قلم کو اٹھاۓ رکھا اورنہایت بے باک انداز میں اپنی بات کہی۔

پروانہ رودولوی کی پیدائش 1931میں نومبر کے مہینے میں ہوئی اور انھوں نے اردو صحافت میں اس وقت قدم رکھا جب اردو کو انتہائی مشکل مرحلہ درپیش تھا۔ ان کی محنت، لگن اور مسلسل کاوشوں کو سراہتے ہو‎ۓ اردو اکادمی اوارڈ براۓ صحافت سے نوازا۔
اس کے علاوہ صحافت اور ادب کے لیۓ انہیں عالمی اردو اوارڈ، افسانہ نگاری کے لیے اتر پردیش اردو اکادمی انعام، میر اکادمی ھنئو کی جانب سے میر قلم انعام، ادبی خدمات کے لیے باباۓ اردو مولوی عبد الحق اوارڈ اور متعد دوسرے انعامات سے نوازا گیا جو بذات خود ان کی گرانقدر خدمات کا اعتراف ہیں۔

ان کی تصانیف میں 'اردو صحافت کا استغاثہ' اور 'ہو بہو' کو کافی مقبولیت ملی۔ اول الذکر جہاں صحافت کا مرقع ہے وہیں آخر الذکر ہمعصر ادیبوں اور شاعروں کے خاکوں پر مبنی ہے۔ اس میں انہوں نے اپنی بیباکی کا مظاہرہ کرتے چند لوگوں کے بارے میں کچھ ایسا لکھ دیا جس نے تلخیاں پید کیں۔

بہر حال انھیں نفیس طبع انسان اور اردو زبان وادب سےگہری وابستگی کے لیے یاد کیا جاۓ گا۔ انہوں نے کانپور سے 'سیاست نو' نامی ایک روزنامہ بھی نکالا جو زیادہ دنوں تک جاری نہ رہ سکا۔ نئی دنیا کے لیے انہوں نے کافی کام کیا اور اپنی مخصوص پہچان چھو‌ڑی۔ انہوں نے تراجم بھی کیۓ، افسانے اور ناول بھی لکھے جن میں 'آزمائش' اور 'ویرانی نہیں جاتی' مقبول ہوئیں۔

No comments: