Wednesday, July 9, 2008

My Country My Life



مائی کنٹری مائی لائف
ان دنوں حزب اختلاف کے سربراہ اور سابق نائب وزیراعظم لال کرشن اڈوانی کی کتاب جہاں ارباب اختیار میں تنقید کے نشانے پر ہے وہیں علم و ادب کی مجالس میں موضوع بحث ہے۔

یہاں ہمارا موضوع سیاسی سرگرمیوں کا احاطہ کرنا نہیں ہے اور نہ ہی اس پر کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی کے بیان پر روشنی ڈالنا ہے بلکہ اس کتاب سے پیدا ہونے والے چند سوالات آپ کے سامنے پیش کرنا ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بھارتیہ جنتا پاڑٹی کی جانب سے وزیر اعظم کے امیدوار کا اس کتاب سے کیا مقصد ہو سکتا ہے اور ان کی پارٹی کی اس سے کیا توقعات وابستہ ہو‏‏ئی ہیں۔

انتہائی احتیاط کے ساتھ لکھی گئی اس خود نوشت سوانح میں چند ایسے مقامات آئے جھاں یا تو حقیقت سے روگردانی کی گئی یا پھر یادداشت نے اس قدر دغاکیا کہ ابہام کی جگہ تضاد نے لے لی۔
موصوف نے نہ جانے کس عالم محویت میں یہ لکھ دیا کہ انھیں بھارت کے مسافر بردار طیارے کے اغوا کے بعد مسافروں اور طیارہ کی رہا‎ئی کے لیے بھارتی جیل میں قید دہشت گردوں کو رہا کرنے کا علم نہیں تھا حالانکہ اس وقت وہ ہندوستان کے وزیر داخلہ تھے اور اس عہدے کو بھارت میں وزری اعظم کے عہدے کے بعد سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ حد تو یہ ہے کہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس وقت بھارت میں امریکہ کا سفیر کون تھا۔

تقریبا ایک ہزار صفحات پر مشتمل اس کتاب میں اڈوانی نے تقسیم ملک کے نتیجے میں بھارت آمد، واجپئی سے ملاقات، جن سنگھ کے دن، ایمر جنسی، ایردھیا اور بابری مسجد انہدام ، آگرہ سربراہ کانفرنس، پاکستان کے دورے ، کرگل کی لڑائی، واجپئی سے اپنی رفاقت جیسے متعدد اہم اور دلچسپ سوالوں پرمفصل روشنی ڈالی ہے۔

یہ معاملہ بھی عجیب ہے کہ اس کتاب کے اجراء کےدوران تو کو‎ئی متنازعہ فیہ مسئلہ سامنے نہیں آیا لیکن جب اس کتاب کے مصنف نے اسے سونیا گاندھی کو پیش کیا ہی تھا کہ مانوں پنڈارا باکس کھل گیا۔

کچھ لوگوں نے اسے لال کرشن اڈوانی کی ری پیکجنگ کہا، کسی نے جھوٹ کا پلندہ اور کسی نے ان کی شدت پسند شبیہ کو سدھارنے کی سعئي لاحاصل سے تعبیر کیا۔ لیکن خود اڈوانی جی نے رسم اجراء کے دوران اقتباسات پڑھتے ہو‎ۓ یہ کہا کہ وہ اس کے ذریعے نوجوانوں تک پہنچنا چاہتے ہیں۔
اس کتاب میں انہوں نے بابری مسجد انہدام پر تاسف کا اظہار بھی کیا ہے۔ اگر وہ آنے والے انتخابات میں اکثریت میں آجاتے ہیں تو سادہ دل ہندوستانی ان کی اس کتاب کو کہیں مستند تاریخی دستاویز نہ مان لیں۔

No comments: