Wednesday, September 3, 2008

Does the Media Care?


میڈیا کی سماجی ذمیداریاں

جمعرات کو دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بی بی سی ورلڈ سروس ٹرسٹ کے تعاون سے ایک روزہ سیمنار کا انعقاد ہوا جس میں ہندوستان کے مشہور تجزیہ نگار اور صحافیوں نے شرکت کیا۔ اس سیمنار میں ہندوستانی میڈیا میں سماجی مسائل کی پیش کش پر بحث کی گئی اور اس بات پر بھی بحث ہوئی کہ آیا ہندوستانی میڈیا سلبریٹیز اور جرم کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔

تہلکہ کے مدیر ترون تیج پال نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ صحافی تمام تر پریولج کے با وجود ایمانداری کے ساتھ اپنی ذمے داریاں نبھانے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ بات ٹیلویژن پر زیادہ صادق آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا بہر طور مارکٹ فورسز کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا ہے۔

ہارڈ نیوز کے ایڈیٹر ان چارج امت سین گپتا نے کہا کہ لوگوں کو جو پیش کیا جاۓگا لوگ وہی دیکھیں گے اور یہ ذمے داری ذرائع ابلاغ پر آتی ہے کہ وہ کیا پیش کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ٹی آر پی محض دھوکہ ہے۔ بازار کی پیداوار ہے۔ کون یہ وثوق کے ساتھ کہ سکتا ہے کہ عوام کیا دیکھنا چاہتی ہے۔ سماجی مسائل سےمنھ موڑنے کے یہ سب جھوٹے بہانے ہیں۔

کالم نگار اور صحافی سعید نقوی نے کہا کہ خبروں کی پیش کش میں بھی ہماری ترجیحات بدل چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اعلی صحافت کا ایک نمونہ وہ تھا جب سیئرا لیون میں گولیوں کی بوچھار کے دوران یک بیک خاموشی طاری ہو جاتی ہے، بندوق اور توپوں کے مہانے آگ اگلنا بند کر دیتے ہیں کیونکہ بی بی سی سننے کا وقت ہو جاتا ہے اور آج کشمیر جل رہا ہے لیکن وہاں ایک بھی صحافی جانے کو تیار نہیں ہے ہاں فیشن شو میں ان کی دلچسپی ضرور ہے۔

نامور صحافی پریم شنکر جھا نے امت سین گپتا سے اتفاق کرتے ہوۓ کہا کہ ہم اب فیلڈ میں جانے سے کتراتے ہیں اور سرکاری موقف کو بیان کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ خبریں کس طرح بنا‏ئی جاتی ہیں اور کس طرح دبائی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک جانب جموں کے مظاہرین پر ربر کی گولیاں چلائی جاتی ہیں تو دوسری جانب سری نگر کے مظاہرین پر اصل گولیاں داغی جاتی ہیں لیکن کہیں بھی اس کا اظہار نہیں ملتا ہے۔
اس سیمنار میں ترون تیج پال نے مانا کہ مسلمانوں کے خلاف ایک قسم کا تعصب ہے جسے وہ پہلے نہیں مانتے تھے۔ اس سیمنار میں کافی اعدادو شمار بھی پیش کیے گۓ تاکہ ہندوستان میں سماجی مسائل پر میڈیا کے رول کا جائزہ لیا جا سکے۔

Ahmad Faraz: The death of a wordsmith

شہر سخن کا سخنور نہیں رہا

اردو کے شاعروں میں فیض احمد فیض کے بعد اگر کسی کو عالمی سطح پر غیر معمولی شہرت ملی تو وہ احمد شاہ فراز ہیں۔ ان کے انتقال پر اردو دنیا سوگوار ہے۔ اردو شاعری کو نئی مقبولیت سے روشناس کرانے میں احمد فراز کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوۓ ہندوستان کے تمام گوشوں میں ایک سوگوار ماحول ہے گویا شہر سخن کا ‎سخنور نہیں رہا۔

ہندوستان کے مشہور شاعر پروفیسر شہریار نے احمد فراز کو دور حاضر کے سب سے بڑے ترقی پسند شاعر کے طور پر یاد کیا جن کے یہاں رومانیت اور ترقی پسندی کا حسین امتزاج موجود ہے۔

احمد فراز کو ہندو پاک دوستی کی ایک اہم کڑی کے طور پر بھی یاد کیا گیا۔ ہندوستان کے کسی بھی مشاعرے میں ان کی شرکت مشاعرے کی کامیابی کی دلیل ہوتے تھے۔ ایک بار ہندوستانی فلم کے نہایت سنجیدہ اداکار فاروق شیخ نے اپنا ممبئی کا سفر اس وقت ملتوی کردیا جب انہیں یہ پتہ چلا کہ آج فراز صاحب جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اپنے کلام پیش کر رہے ہیں۔

اردو ادب کے مدیر اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق استاد ڈاکٹر اسلم پرویز نے کہا کہ وہ عوام اور خواص دونوں طبقوں میں بے انتہا مقبول تھے اور بہت کم ایسے اہل ذوق ہوں گے جن کے ذاتی کتب خانوں میں احمد فراز کا کوئی مجموعہ کلام موجود نہ ہو۔

ہندوستان کے مختلف علمی ادبی اداروں اور ادباء شعراء کی جانب سے لگاتار تعزیتی مجلسوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری اور جے این یو کے سابق استاد پروفیسر صدیق الرحمن قدوئی نے فرا‌‌ز کی وفات پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوۓ کہا کہ ان کی موت سے اردو شاعری کے ایک بڑے دور کا خاتمہ ہو گیا جس میں فیض، ساحر، کیفی اور سردار جیسے بڑے شعراء تھے