Wednesday, September 3, 2008

Ahmad Faraz: The death of a wordsmith

شہر سخن کا سخنور نہیں رہا

اردو کے شاعروں میں فیض احمد فیض کے بعد اگر کسی کو عالمی سطح پر غیر معمولی شہرت ملی تو وہ احمد شاہ فراز ہیں۔ ان کے انتقال پر اردو دنیا سوگوار ہے۔ اردو شاعری کو نئی مقبولیت سے روشناس کرانے میں احمد فراز کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوۓ ہندوستان کے تمام گوشوں میں ایک سوگوار ماحول ہے گویا شہر سخن کا ‎سخنور نہیں رہا۔

ہندوستان کے مشہور شاعر پروفیسر شہریار نے احمد فراز کو دور حاضر کے سب سے بڑے ترقی پسند شاعر کے طور پر یاد کیا جن کے یہاں رومانیت اور ترقی پسندی کا حسین امتزاج موجود ہے۔

احمد فراز کو ہندو پاک دوستی کی ایک اہم کڑی کے طور پر بھی یاد کیا گیا۔ ہندوستان کے کسی بھی مشاعرے میں ان کی شرکت مشاعرے کی کامیابی کی دلیل ہوتے تھے۔ ایک بار ہندوستانی فلم کے نہایت سنجیدہ اداکار فاروق شیخ نے اپنا ممبئی کا سفر اس وقت ملتوی کردیا جب انہیں یہ پتہ چلا کہ آج فراز صاحب جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اپنے کلام پیش کر رہے ہیں۔

اردو ادب کے مدیر اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق استاد ڈاکٹر اسلم پرویز نے کہا کہ وہ عوام اور خواص دونوں طبقوں میں بے انتہا مقبول تھے اور بہت کم ایسے اہل ذوق ہوں گے جن کے ذاتی کتب خانوں میں احمد فراز کا کوئی مجموعہ کلام موجود نہ ہو۔

ہندوستان کے مختلف علمی ادبی اداروں اور ادباء شعراء کی جانب سے لگاتار تعزیتی مجلسوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری اور جے این یو کے سابق استاد پروفیسر صدیق الرحمن قدوئی نے فرا‌‌ز کی وفات پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوۓ کہا کہ ان کی موت سے اردو شاعری کے ایک بڑے دور کا خاتمہ ہو گیا جس میں فیض، ساحر، کیفی اور سردار جیسے بڑے شعراء تھے

No comments: