Wednesday, July 9, 2008

1857 a play


'اٹھارہ سو ستاون ایک سفرنامہ '

فلم' مغل اعظم' کی سب سے بڑی خصوصیت اس کے مکالمے یعنی اس کی زبان رہی ہے لیکن آج جبکہ ہندوستان سے اس زبان کا استعمال رخصت ہو چکا ہے تب بھی اس کی تازہ رنگین نمائش میں لوگوں کی دلچسپی قابل تعریف رہی۔ جس سے یہ معلوم ہوا کہ اگر فلم واقعی اچھی فلم ہے تو وہ زبان کی حدوں کو عبور کرکے دلوں پر راج کرتی ہے۔

ان دنوں دہلی کے پرانے قلع میں اٹھارہ سو ستاون کے پر آشوب واقعات کو اسٹیج پر پیش کیا جا رہا ہے لیکن تھیٹر کے شائقین اور ناقدین فن نیشنل اسکول آف ڈراما کی اس پیشکش پر زیادہ پرجوش نظر نہیں آۓ۔ وجہ نہ صرف غیر معیاری زبان کا استعمال اور لہجے اور تلفظ ہے بلکہ ملبوسات اور دوسرے حقائق بھی اس پیشکش کی خامیوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

نیشنل اسکول آف ڈرامہ یعنی این ایس ڈی نے 'تغلق'، 'رضیہ سلطان' اور 'مہابھوج' یا پھر 'اندھا یگ' کی کامیاب پیشکش سے تاریخی ڈراموں کا جو معیار قائم کیا تھا وہ اٹھارہ سو ستاون کی پیشکش سے اسی طرح رخصت ہوا چاہتا ہے جیسے اٹھارہ سو ستاون کی جدوجہد کے بعد ہندوستان سے دیسی حکومت۔

No comments: